جوہری معاہدے سے دستخط کے بعد ایران اور دنیا سے تجارتی تعلقات کے فروغ پر مزید توجہ دی گئی اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا ایک طریقہ ہمسایہ مکلوں سے مشترکہ سرحدوں کی صلاحیتوں کو بروئے لانا ہے۔
جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی اور ایران کیخلاف تجارتی اور بینکنگ کے شعبوں میں عائد پابندیوں کے نفاذ سے ہمسایہ ملکوں سے تعلقات کے فروغ پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی گئی اور باضابطہ سرحدوں کے افتتاح اور سرحدی بازاروں کے قیام پر منصوبہ بندی کی گئی۔
پاکستان ان اہم ممالک میں سے ایک ہے جو ایران کیساتھ 950 کلومیٹر سرحد کے ساتھ سرحدی بازاروں کو ترقی دے کر تجارتی اور معاشی تعلقات کو بڑھا سکتا ہے؛ اس عرصے کے دوران، مذاکرات اور تجاویز کے باعث سرحدی منڈیوں کی ترقی سے سرحدی باشندوں کی تجارتی سرگرمیوں کو بہتر بنانے کے لئے دونوں ممالک کے مابین چھ مشترکہ سرحدی بازاوں کے قیام سے اتفاق ہوا۔
اس سے قبل، ایران یا پاکستان کے ذریعہ یکطرفہ طور پر سرحدی بازاروں کا قیام عمل میں لایا جاتا تھا؛ لیکن اب پہلی بار دونوں ممالک کے مابین مشترکہ سرحدوں کے قیام پر باضابطہ طور پر بات چیت کی گئی اور دونوں فریقوں نے مشترکہ بازاروں کے مقام اور سائز کا تعین کرنے اور مارکیٹوں میں قابل تجارت اشیاء کی فہرست تیار کرنے کیلئے تکنیکی ٹیمیں مقرر کیں۔
اس حوالے سے ایران کے تجارتی ترقیاتی ادارے کے ایشیاء پیسیفک کے دفتر کے ڈائریکٹر جنرل "سید رضا آقا زادہ" نے کہا کہ 1400 کے شمسی سال میں کوہک اور پیشین (سراوان) کے علاقوں میں مشترکہ سرحدی بازاروں کا قیام ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فی الحال صوبے سیستان و بلوچستان اور پاکستانی سرحد میں "سراوان- جالق"، "سراوان- کوہک"، "پیشین-چابہار- ریمدان" کے بازاروں میں تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں اور میرجاوہ سرحدی بازار اور میرجاوہ کسٹم بھی ایک دوسرے سے منسلک ہوگئے ہیں۔
دوسری طرف، باضابطہ سرحد کے کھلنے سے پاکستان کیساتھ تجارت کے قابل سامان کی تعداد میں اضافے اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کیلئے تعلقات کو وسعت ملے گی۔
اس سلسلے میں ایران اور پاکستان کے مابین دوسری سرحدی گزرگاہ ریمدان گبد کا حالیہ مہینوں میں باضابطہ افتتاح کردیا گیا ہے۔
نئی سرحدی گزرگاہ کے ذریعے ایران اور پاکستان کے درمیان تجارتی لین کے علاوہ مسافروں کو بھی قانونی سفری دستاویزات کے ساتھ آنے جانے کی اجازت ہوگی۔
ایران پاکستان سرحد پر واقع ریمدان گزرگاہ، چابہار کی بندرگاہ سے ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جبکہ پاکستان کی بندرگاہ گوادر سے اس کا فاصلہ محض ستر کلومیٹر ہے۔
ریمدان گزرگاہ پاکستان، چین اور بھارت میں آباد دنیا کی سینتس فی صد آبادی کے لیے ایران تک رسائی کا سستا ا ور آسان ترین راستہ ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ ریمدان گبد سرحد کے افتتاح سے ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی اور تجارتی لین میں اضافہ ہوگا اور مسافروں کو آنے جانے میں سہولت ملے گی۔
ایران اور پاکستان کے درمیان نو سو نو کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے تاہم اب تک دونوں ملکوں کے درمیان صرف میرجاوہ تفتان بارڈر ہی فعال رہا ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ